پہلی محفل
مورخہ: 25 جنوری 2019
مہمان خصوصی: وسیم
رپورٹ:
اردو کی سب سے پہلی محفل جناب وسیم صاحب کے ساتھ مورخہ 25 جنوری 2019 کو منعقد کروائی گئی۔ وسیم صاحب نئے کے ایک ابھرتے ہوئے شاعر ہیں۔ کم عمر ہونے کے باوجود آ پ کے کلام کی سنجیدگی اور گہرائی قابل تعریف ہے۔ چونکہ آپ پیر نصیر الدین اور علامہ اقبال کی شاعری سے حد درجہ متاثر ہیں تو آپ کے کلام میں گہرائی اور سخن میں بہت خوبصورت اتار چڑھاؤ پایا جاتا ہے۔ آپ نے اردو کے ساتھ ساتھ بہت سارا پنجابی کلام بھی لکھا ہوا ہے۔ وسیم صاحب کے کلام اور انداز بیان نے سردیوں کی شام کو خوبصورت بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اس شام کو ہمارے لیے ایک یاد گار شام بنا دیا۔ محفل کے اختتام پر آپ کو بطور مہمان خصوصی پھولوں کے تحفے بھی پیش کیے گئے۔
دوسری محفل
مورخہ: 28 فروری
2019
مہمان خصوصی: بشارت وارثی
رپورٹ:
اردو کی دوسری محفل 28 مورخہ فروری 2019 کو محترم بشارت وارثی صاحب کے ساتھ منعقد کروائی گئی۔ بشارت وارثی صاحب عام طور پر نعت رسول مقبولﷺ لکھنے اور پڑھنے کے لیے مشہور ہیں۔ آپ کو پاکستان میں میلاد کی بڑی محفلوں میں نعت پڑھنے کے لیے بلایا جاتا ہے۔ آپ کا انداز بیان اور سروں کا اتار چڑھاؤ نعتیہ کلام کو بہت خوبصور ت اور پر لطف بنا دیتا ہے۔ اس محفل میں بھی آپ کے نعتیہ کلام اور بیان نے سننے والوں کو بے حدسرور بخشا۔ محفل میں موجود پروفیسر عنصر صاحب نے فکشن تحریر پر بھی بات کی اور اپنی لکھی ہوئی ایک تحریر بھی سنائی جو سننے والوں کے لیے بہت دلچسپ تھی۔ ا سی طرح محفل اپنے اختتام کو پہنچی ۔ محفل کے اختتام پر مہمان خصوصی کو پھول بھی پیش کیے گئے۔
تیسری محفل:
مورخہ: 17 جولائی 2019
مہمانِ خصوصی: خیال نصیروی ، صائم چشتی
رپورٹ:
اردو کی اس ماہ کی تیسری محفل جناب خیال نصیروی اور صائم چشتی صاحب کے ساتھ منعقد کروائی گئی۔ محفل کا آ غاز صائم صاحب نے اپنی خوبصورت آواز میں نعت رسول ﷺ پڑھ کر کیا۔ اسی طرح دوران محفل وہ وقتاً فوقتاً اپنی خوبصورت آواز کا جادو جگاتے رہے۔ محفل میں جب مہمان خصوصی خیال نصیروی نے اپنا خوبصورت اور ساحری کلام پیش کیا تو گویا تمام محفل پر جیسے سکوت سا چھا گیا ۔ اس کے بعد پے در پے آپ کے کلام نے حاضرین محفل کو اپنے سحر میں جکڑ لیا۔ آپ کا انداز بیان اور شخصیت میں سنجیدہ پن آپ کے کلام کو اور بھی خوبصور ت بنا دیتا ہے۔ محفل میں آئے مہمان جناب ڈاکٹر طاہر کے افسانے اور جواد حسنین بشر کے سوالات اور معلومات نے محفل کو مزید دوام بخشا۔ اس کے علاوہ حاضرین محفل میں شاعری سے شغف رکھنے والے مہمانوں نے بھی اپنا منتخب کردہ کلام پیش کیا۔ محفل کے اختتام پر مہمانوں کو پھولوں کے گلدستے بھی پیش کیے گئے۔
کلام:
اپنی شاخ سے بچھڑا ہوں میں اک سوکھا پتا ہوں کوئ مجھ کو ڈھونڈ کے لاوء صدیوں سے گم کردہ ہوں غم ہوں اپنی شاموں کا آنسو آنسو بہتا ہوں محفل سے مانوس نہیں میں بھی کتنا تنہا ہوں خاموشی سے کان لگائے خاموشی کو سنتا ہوں کس کے ماتھے کا جھومر؟ کس کی آنکھ کا سرمہ ہوں؟ اندر ہے خدشات کی جنگ اپنے آپ سے لڑتا ہوں مجھ کو روک لیا جائے رات کا پہلا لمحہ ہوں میں بھی ہوں اک خواب خیال “میں بھی تیرے جیسا ہوں” خیال نصیروی |
چوتھی محفل
مورخہ : 31 اکتوبر 2019
مہمان ِ خصوصی: شعیب کیانی
رپورٹ:
اردو ہے جس کا نام کی چوتھی محفل مورخہ 31 اکتوبر 2019 کو مہمان خصوصی جناب شعیب کیانی کے ساتھ منعقد کروائی گئی۔ آپ کی آمد اور کلام نے اس شام کو بہت خوبصورت اور یاد گار بنا دیا۔ شعیب کیانی کا کلام رومانوی ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں معاشرے میں نظر انداز ہونے والی سچائیاں بھی نظر آتی ہیں۔ آپ کے کلام کی گہرائی اور خوبصورتی نے حاضرین محفل کی خوب داد وصول کی۔ محترم جواد صاحب اور ارشد ہادی صاھب نے بھی اپنی خوبصورت تحریریں پڑھ کر سنائیں اس کے ساتھ ساتھ محفل میں موجود بہت سے احباب نے اپنی پسند کا منتخب کردہ کلام پیش کیا جس نے محفل کی رونق کو دوبالا کر دیا اور ایک حسیں سماں بندھ گیا۔
کلام:
صرف خود کو خدا نہیں کہتا مولوی اور کیا نہیں کہتا آئینہ دیکھ کر نکلتا ہوں سو کسی کو برا نہیں کہتا ہے اندھیرا بھرا ہوا اس میں میں خلا کو خلا نہیں کہتا تُو یہی سوچتا ہوا مر جا کیا میں کہتا ہوں، کیا نہیں کہتا ڈر رہا ہے تجھے نہ کچھ کہہ دوں یار! تُو لوٹ آ۔۔۔ نہیں کہتا حل کریں ہم اگر تو ہو جائے میں اسے مسئلہ نہیں کہتا شعیب کیانی | اُس پہ عیّاروں کا اِجارہ تھا ورنہ مجھ کو خدا گوارا تھا سطح یونہی نہیں بلند ہوئی مجھ کو اِک چاند نے ابھارا تھا تم جسے صبح لینے آئی ہو وہ تو کل شام سے تمہارا تھا اس نے جُوتا پہن کے بدلا ہے اس کو پورا نہیں تھا، پیارا تھا یہ بھی دن ہیں کہ اِک جہاں ہے مِرا وہ بھی دن تھے کہ میں تمہارا تھا سال پہلے ملا تھا میں خود کو یار! بس ٹھیک تھا، گزارا تھا سامنے سانولی صراحی تھی جسم میں آخری حرارہ تھا میرے باہر بھنور تھے، ڈھونڈا تو دور اندر کہیں کنارا تھا شہر میں شبنمی لبوں پہ وہ نم آخری قدرتی نظارہ تھا پیچھے مڑتے ہی مل گئے دونوں فاصلہ اتنا سا تو سارا تھا ساڑھیوں میں بھی تھے حسین چراغ پِر شرارے میں جو شرارہ تھا شعیب کیانی |
پانچویں محفل
مورخہ: 30 نومبر 2019
مہمانِ خصوصی: علامہ خالد رومی
رپورٹ:
اردو ہے جس کا نام کی پانچویں محفل مورخہ 30 نومبر 2019 کو منعقد کروائی گئی۔ جس کے مہمان ِ خصوصی علامہ خالد رومی صاحب تھے۔ علامہ خالد رومی دور حاضر کے بہت اعلیٰ پائے کے سخنور ہیں۔ آپ کو بڑے لالہ جی کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ آپ کا تخلص رومی ہے۔ آپ سات زبانوں میں شاعری لکھ اور پڑھ چکے ہیں اسی بنا پر آپ کو سات زبانوں کاشاعر کہا جاتا ہے۔ آپ کی شخصیت علم سے بھرپور ہے اور آپ کی شاعری کلاسیکی کے بہت اونچے درجے پر ہے ۔ شاعری لکھنے پڑھنے کے ساتھ آپ موسیقی شناس بھی ہیں۔ آپ پیر نصیرالدین کے شاگرد ہیں اور اپنی تحریر میں رشید ساقی اور ناظم صاحب سے بھی اصلاح لیتے رہے ہیں۔ محفل میں موجود تمام احباب کو آپ کے علم اور شخصیت نے بہت متاثر کیا۔ ہمیشہ کی طرح آج کی محفل کو بھی جواد صاحب کی معلوماتی گفتگو اور دیگر حضرات کے منتخب کردہ کلام نے بہت خوبصورت بنا دیا۔
کلام:
تری فرقت میں مجھ سے اور کچھ تو ہو نہیں سکتا. کبھی رونا کبھی ہنسنا کبھی فریاد ہوتی ہے.
بڑے لالہ جی رح | رزوئے وصلِ جاناں میں سحر ہونے لگی. زندگی مانندِ شمع مختصر ہونے لگی.
بڑے لالہ جی رح |
تڑپ جاتی ہے جس سے انجمن سارے حسینوں کی. وہ تیرے میرے حسن و عشق کی روداد ہوتی ہے.
بڑے لالہ جی رح | بھلا تو کیا مجھے اے ناصحِ ناداں سکھائے گا. محبت میں طبیعت آپ ہی استاد ہوتی ہے.
بڑے لالہ جی رح
|
چھٹی محفل
مورخہ: 27 دسمبر 2019
مہمانِ خصوصی: جواد حسنین بشر، محمد علی بخت
رپورٹ:
اردو ہے جسکا نام کی آج کی (اب تک کی طویل ترین )نشست مورخہ 27 دسمبر 2019 کومہمان خصوصی جواد حسنین صاحب اور محمد علی بخت صاحب کے ساتھ منعقد کی گئی۔ جواد صاحب کے تعارف کے لیے اتنا کہنا ہی کافی ہو گا کہ آپ اردو سے بے ھد محبت کرتے ہیں اور اردو سے متعلق آپ کا علم اس چیز کی نشاندہی کرتا ہے۔ جواد حسنین بشر نے بہت سی انگریزی کتابوں کا ترجمہ اردو میں کیا ہے۔ شا عری کے ساتھ ساتھ ایک بہترین افسانہ نگار اور فکشن رائٹر بھی ہیں اور اتنا ہی نہیں آپ موسیقی سے بہت لگاؤ رکھتے ہیں اس سلسلے میں آپ بہت سے گانے اور غزلیں لکھ چکے ہیں اس کے ساتھ ساتھ آپ موسیقی کمپوز بھی کرتے ہیں۔ آج کی محفل میں جواد صاحب نے نثر و شاعری میں بے حد خوبصورت کلام سنایا ااور محمد علی بخت صاحب کے اردو سے متعلقہ علم نے حاضرین محفل کو بہت متاثر کیا۔ آپ نے روزمرہ استعمال ہونے والے اردو الفاظ میں لغوی غلطیوں اور ان کی ادائیگی سے تعلق نشاندہی کی جس سے معلومات میں اضافہ ہوا۔ آپ کی شخصیت میں طنزو مزاح کا عنصر آپ سے ملنے والوں کو دوبارہ ملنے پر مجبور کردیتا ہے۔ حاضرین محفل کی متعلقہ موضوعات پہ بحث سے بھی کافی سیکھنے کا موقع ملا ۔ امجد صاحب کا کلام، طاہر صاحب کا انتخاب اور مجاہد صاحب کے سوالات سب نے ملکر شام کو یادگار بنایا۔ محفل کے اختتام پر مہمانوں کو پھولوں کے گلدستے بھی پیش کیے گئے۔
کلام:
جو بوجھ ہے دلِ شبنم پہ اوس میں ڈھلنا تو تیری آنکھ سے گر کر ستارا ہو جائے رکوں تو اک نیا دریا ہو سامنے میرے چلوں تو ہر نیا دریا کنارا ہو جائے پھر ایسے کارِ جہاں سے اور کیا بہتر؟ کسی کے واسطے کوئی سہارا ہو جائے | ٹوٹی نہ یونہی تو میری باتوں کی روانی سنتا کوئی دل سے تو سناتا میں کہانی شیریں ہے، جو دریائے محبت کی ہے اک موج کھارا ہے ،جو نفرت کے سمندر کا ہے پانی
|
جسے ہو قدر خوشی کی خوشی کے لمحوں کی وہ دل کسی کی خوشی میں بھی جھوم لیتا ہے | طوفان خیز گہرے سمندر سے دوستو! واقف کہاں ہو تم میرے اندر سے دوستو! |
ساتویں محفل
مورخہ: 2 فروری 2020
مہمانِ خصوصی: اتباف ابرک
رپورٹ:
اردو ہے جس کا نام کی اس ماہ کی (اب تک کی سب سے بڑی نشست ) محترم اتباف ابرک کے ساتھ منعقد کی گئی۔ ۔ آج کےمہمان خصوصی اتباف ابرک صاحب لاہور سے اس محفل میں شرکت کے لیے تشریف لائے تھے۔ اتباف ابرک صاحب دور حاضر کے بہت جانے پہچانے شاعر ہیں۔ آپ نے اپنے خوبصورت کلام سے حاضرین محفل کی خوب داد وصول کی ۔ حاضرین محفل میں بہت سے معزز مہمانان گرامی خواتین و حضرات نے بھی اپنے خوبصورت کلامات پیش کئے۔ محفل کا اختتام ایک خوبصورت گیت پر ہوا جسے محفل میں موجود تمام افراد نے بہت پسند کیا۔
کلام:
رابطے بھی رکھتا ہوں راستے بھی رکھتا ہوں لوگوں سے بھی ملتا ہوں فاصلے بھی رکھتا ہوں غم نہیں ہوں کرتا اب، چھوڑ جانے والوں کا توڑ کر تعلق میں، در کھلے بھی رکھتا ہوں موسموں کی گردش سے میں ہوں اب نکل آیا یاد پر خزاؤں کے حادثے بھی رکھتا ہوں خود کو ہے اگر بدلا وقت کے مطابق تو وقت کو بدلنے کے حوصلے بھی رکھتا ہو بھر کے بھول جاتے ہیں گھاؤ فکر ہے مجھ کو زخم کچھ پرانے سو ان سلے بھی رکھتا ہوں گو کسی بھی منزل کی اب نہیں طلب مجھ کو ہر گھڑی میں پیروں میں، آبلے بھی رکھتا ہوں مانتا ہوں ابرک میں، بات یار لوگوں کی سوچ کے مگر اپنے، زاویے بھی رکھتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اتباف ابرک | اس مکاں کا مکین کیسے ہو کوئی تم سا حسین کیسے ہو زندگی تم نہیں ہو اب میری زندہ ہو کر یقین کیسے ہو جو نہ لکھا خیال میں تیرے شعر وہ دل نشین کیسے ہو ہو طلب میں جو آسمانوں کی اس کی پھر یہ زمین کیسے ہو بن کے جیتا ہے اک سوال ابرک کہاں ہو ہم نشین کیسے ہو اتباف_ابرک
|
آٹھویں محفل
مورخہ: 14 مارچ 2020
مہمانِ خصوصی: ناذیہ شاد
رپورٹ:
اردو ہے جس کا نام کی اس ماہ کی محفل مورخہ 14 مارچ 2020 کو منعقد کروائی گئی۔ ۔اس دفعہ کی پہلی ادبی محفل ایک خاتون شاعرہ مہمان خصوصی محترمہ روبینہ شاد کے ساتھ منعقد کی گئی۔ انہوں نے اپنے خوبصورت کلام سے حاضرین محفل کی خوب داد وصول کی ۔ بینائی سے محروم یہ خوبصورت و خوب سیرت شاعرہ ہمارے جیسے عام انسانوں کے لیے ایک مثالی شخصیت ہیں جنہوں نے اپنی اس کمزوری کو اپنی ترقی کی راہ میں کبھی رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ ان کی خوبصورت اور برمحل گفتگو اور رومانوی شاعری نے حاضرین محفل کو بہت لطف پہنچایا۔ حاضرین محفل میں بہت سے معزز مہمانان گرامی جناب جواد بشر، شعیب کیانی ، بشارت وارثی اور وسیم صاحب نے بھی اپنے خوبصورت کلامات پیش کئے جس سے محفل کی رونق دوبالا ہوگئی۔
کلام :
کہا میں نے مجھے تم بھول جاؤ کہا اس نے تمہیں کیسے بھلاؤں کہا میں نے کہ تمہاری کیا ہے حسرت کہا اس نے کہ ہر دم تم کو پاؤں کہا میں نے مجھ میں کیا ہے ایسا کہا اس نے تمہیں کیسے بتاؤں کہا میں نے اگر ہم مل نہ پائے کہا اس نے کہ میں دنیا چھوڑ جاؤں کہا میں نے کہ میں ہوں غم کی ماری کہا اس نے تیرا ہر غم اٹھاؤں کہا میں نے روبینہ ہے تمہاری کہا اس نے خوشی سے نہ مر جاؤں روبینہ شاد | نارسائی کی اذیت سے بہت ڈرتی ہوں میں تیری دید کی حسرت سے بہت ڈرتی ہوں جانے کس وقت، کہاں مجھ کو دغا دے جائے زندگی! تیری رفاقت سے بہت ڈرتی ہوں اب تو خود پر بھی بھروسہ نہیں ہوتا مجھ کو اپنی سادہ طبیعت سے بہت ڈرتی ہوں اک گھروندا ، جو خیالوں کا بنا رکھا ہے ٹوٹ جانے کی حقیقت سے بہت ڈرتی ہوں جاگ اٹھے گا تو کہیں کا نہیں رہنے دے گا جذبہ عشق کی شدت سے بہت ڈرتی ہوں مندمل ہو کے بھی رستہ ہی رہے خوں جن سے ایسے ذخموں کی جراحت سے بہت ڈرتی ہوں روبینہ شاد |